A political party that wants to play an important role in the development and construction of Pakistan along with the rights of the Meo Nation.

قائدِاعظم اوراسلام

0 56

قائدِاعظم اوراسلام

قائدِاعظم اوراسلام

قائد اعظم ؒکے اللہ کے رسول ﷺ ، اسلام اور مسلمانوں کے بارے مختلف لوگوں کے مختلف آراء سامنے آتی رہی ہیں ۔لیکن وہ لوگ شایدیہ جاننے سے قاصرہیں کہ قائدِاعظم اوراسلام کےتعلق کانتیجہ ہی توپاکستان ہے۔لیکن میں یہاں یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم ؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے ۔ اگر دیکھا جائے تو قا ئد اعظم اپنی قوت ایمانی کی بنا پر ہی ساری عمر کفر کی طاقتوں کے سامنے   ڈٹے رہے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی ۔

 

ہندواورانگریزبھی ہماری روح کوفنانہیں کرسکتے

آپ کا ہر بیان اسلامی روح کا آئینہ دار اور واضح ہے ۔ اسی سے قائدِاعظم اوراسلام کے گہرے تعلق کاعلم ہوتا۔اس سلسلہ میں ان کے چند ایک بیانات بطور سند پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں جو آپ کی اسلام کے بارے میں رائے کی عکاسی کرتے ہیں  قائد اعظم نے ہندوئوں اور انگریزوں کو للکارتے ہو ئے فرمایا ہندو اور انگریز ! تم دونوں متحد ہو کر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے جوہمیں ورثہ میں ملی ہے ۔ہمارا نور ایمان زندہ ہے ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ ( مرکزی اسمبلی ۲۲ مارچ ۱۹۳۰ ء)

 

 

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید

ٍ ٭قائد اعظم ؒ نے مسلم قومیت کی بنیاد،قائدِاعظم اوراسلام کے تعلق کے بارے میں دو الفاظ میں فرمایا :مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے ۔ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا نہیں رہا ،وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا ۔ آ پ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا ہے ،اس کی وجہ ہندوئوں کی تگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال ،یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا ۔‘‘ ( مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۸ مارچ ۱۹۴۴ ء)

قائدِاعظم اوراسلام

 

قائدِاعظم کی روح کااظہار

اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کے لئے ناگزیر ہے ۔ یہ ایک طرف قیام پاکستان جواب ہیں اور دوسری طرف ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمہ دارہیں ۔‘‘ ( ۲۶ مارچ ۱۹۴۸ء )٭ قائد اعظم ؒ نے اپنے ایمان کی روح کا اظہار،قائداعظم اوراسلام کے تعلق کو ان روشن الفاظ میں بیان کیا اوربتایا کہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام ﷺ نے ہمارے لئے بنایا ہے ۔‘‘ ( ۱۴ فروری ۱۹۴۷ ء)

 

قائدِاعظم اوراسلام

 

قائدِاعظم نے فرمایااسلام ہماری زندگی

٭ قائد اعظم ؒ نے اسلامیہ کالج پشاور میں نہایت صریح الفاظ میں فرمایا:اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے ۔٭ قائد اعظم ؒ نے ہر پہلو سے اسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : اگر کوئی چیز اچھی ہے تو عین اسلام ہے جو چیز اچھی نہیں وہ اسلام نہیں کیونکہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے ۔ان تمام بیانات سے قائدِاعظم اوراسلام سے انکارشتہ ثابت ہوتا ہے۔
( ۲۷ مارچ ۱۹۴۷ ء)

 

قائدِاعظم اوراسلام

 

 قائد اعظم نے اسلام کی تعریف میں فرمایا

 اسلام انصاف و مساوات ، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے ،جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں بھی آجائیں ان کے ساتھ فیاضی کو روا رکھتا ہے ۔‘‘ ( مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ،۲ نومبر ۱۹۴۰ ء)
٭ قائد اعظم نے پاکستانی اقلیتوں کے بارے میں فرمان ہے : پاکستان کی اقلیتوں کے افراد برابر کے شہری ، پر ہمارا ایمان ہے ۔‘‘ ( کراچی ستمبر ۱۹۴۶ ء)قائدِاعظم اوراسلام کاآپس میں تعلق مقصدِ پاکستان کوواضح کرتاہے۔

 

قائدِاعظم اوراسلام

 

 قائدا عظم نے فرمایا 

 میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی ،پنجابی ،سندھی ،بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں ، میں مانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ آپ وہ سبق بھول گئے جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا ۔‘‘ ( ڈھاکہ ۲۱ مارچ ۱۹۴۸ء )قائداعظم اوراسلام آپس میں مل کراللہ کی رسی کومضبوطی سےتھام لوکی دعوت ہے۔
موہن داس کرم چند گاندھی نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا :

 

قائدِاعظم اوراسلام

 

دونوں قومیں ایک ہوجائیں گیں

 مجھے تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس کے مطابق تبدیلی مذہب والے لوگ اور ان کے اسلاف اپنے اسلاف کو چھوڑ کر خود ایک قوم ہونے کا دعویٰ کر بیٹھیں۔اگر ہندوستان آمد اسلام سے پہلے ایک قوم تھا تو اسے اپنی اولاد کو ایک بڑی تعدا د کی تبدیلی کے بعد بھی ایک قوم ہی رہنا ہوگا ۔ آپ کا علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ فتح کی وجہ سے نہیں بلکہ لو گوں کے قبول اسلام کی وجہ سے ہے کیا اگر ہندوستان کے سب لوگ اسلام قبول کرلیں تو دونوں قومیں ایک ہو جائیں گی ۔‘‘

قائداعظم اورانکااسلام سےتعلق میں پاکستانی قوم کیلئے راہنمائی موجودہے۔

قائدِاعظم اوراسلام

 

قائداعظم اوراسلام  کے تعلق نے پاکستانیوں کوایک قوم بنادیا۔ہم اس نقطہ نظر پر قائم ہیں کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے دو بڑی قومیں ہیں ، ہم دس کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم ہیں ۔ ہم اپنی مخصوص تہذیب اور تمدن ،زبان اور ادب ، فن اور معماری ،نام اور القاب واقدار اور تناسب ، قوانین اور اخلاق،رسوم اور تقویم ،تاریخ اور روایات ،رجحانات اور خواہشات کی حامل قوم ہیں ۔مختصر یہ کہ زندگی اور اس سے متعلق تمام بین الاقوامی قوانین کی رو سے ہم ایک قوم ہیں ۔

 

 

قائدِاعظم اوراسلام

 

قائد اعظم کا مقصد کلمہ طیبہ کانظام 

 پونجا تھا۔ آپ خواجہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے پونجا کراچی کے چوٹی کے تاجروں میں سے ایک تھے۔ آپ چمڑے کی تجارت کرتے تھے ۔ قائدا عظم نے سندھ کے ایک ہائی اسکول سے میڑک کا امتحان پاس کیا اور کراچی ہی کے ایک مکتب میں قرآن مجید پڑھا۔اس کے بعد ایک دوسرے مدرسہ میں داخل ہو کر فارسی کی چند کتب بھی پڑھیں۔

 

قائدا عظم کی دو خصوصیات

شروع ہی سے نمایاں نظر آتی ہیں۔ آپ کی ذہانت اور ہر نئی چیز کو متجسس نگاہوں سے دیکھنے کا جذبہ دوسرے اعلی لباس پہنے کا شوق ، آپ کافی ذہین تھے۔ قائدا عظم چار سال بعد ١٨٩٦ میں بیر سٹرلاء کی اعلی ڈگری لے کر ہندوستان واپس آئے ، پھر آپ وکالت کرنے کے لیےممبئی چلے گئے۔ ممبئی میں آپ کے تین چار سال بڑی تنگدستی میں گزرے ۔ لوگ آپ کی ذہانت سے آشنا ہوگئے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے نبھائے۔

 

آپ مولانا جوہر کی کوشش کانتیجہ

١٩١٣ میں قائدا عظم انگلستان میں تھے ۔ آپ مولانا جوہر کی کوشش سے مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ واپسی پر آپ نے کراچی کے عظیم الشان جلسہ میں انڈیا کو نسل کی  ترتیب میں اصلاح کرنے کی زبردست تجویز پیش کی، جسے تمام ہندوستان میں سراہا گیا۔مئی ١٩١۴ میں انڈین نیشنل کا نگریس نے انہیں اپنا نمائندہ بنا کر انگلستان بھیجا ، جہاں آپ نے بڑی قابلیت اور جرات سے ہندوستانیوں کی نمائندگی کی ۔اس کے بعد حالات تیزی سے بدلنے لگے۔

مسلم لیگ کی قیادت میں شامل

1913ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1916ء میں اس کے صدر منتخب ہوئے۔ اس وقت تک آپ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھےاور اس وقت برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ایک ہی پلیٹ فارم تھا ۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگریس چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل رہے۔

 

قائدِاعظم ایک قانون پسندانسان

آپ ایک سچے، دیانتددار، محنتی، قانون پسند اور مخلص انسان تھے۔ آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر اور پاکستانی سیاستدان تھے۔ آپ کی قیادت نے ایک آئینی طریقےپر مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست پاکستان کے نام سے حاصل کی، جو کہ ایک لمبی جدو جہد کے بعد حکومت برطانیہ سے حاصل ہوئی۔ 1896ء میں قائد اعظم نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے لئے مشہور چودہ نکات پیش کئے۔

 

محمد علی جناحؒ زندہ جاوید ہوگئے

آپ نے پرجوش ہوکر مقابلہ کیا اور پوری کوشش کی مسلمانوں کو حقوق دلوانے کی اور آخر کار آپ کی جدو جہدکا نیتجہ ١۴ اگست ١٩۴٧ کو پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔١٩٧ کے انقلاب کی وجہ سے محمد علی جناحؒ زندہ جاوید ہوگئے۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنر جزل مقرر ہوئے قائداعظمؒ اس وقت تک زندہ جاوید رہیں گے، جب تک تاریخ میں پاکستان کا نام موجود ہے ۔مگر افسوس ہے کے پاکستان بنے ہوئے 74 سال ہوگئے ہیں ۔

 

 

قائدا عظم کا جو خواب تھاوہ اب بھی پورا نہ ہوسکا، پاکستان دو قومی نظریہ کے تحت حاصل کیا گیا، تاکہ اس میں اسلامی قوانین نافذ ہوں۔ مگر افسوس آج تک اسلامی قوانین نافذ نہیں ہوسکے، جس کی وجہ سے آج تک ہم بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔

 

 

٢۵ دسمبر کو قائد اعظم کی سالگرہ کا دن ہے، اس دن ہم لوگوں کو صرف تقریبات ہی منعقد نہیں کرنے چاہیے، بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کے لیے جہدوجہد کرنی چاہیے۔ آزادی بڑی نعمت ہیں اور ہمیں آپنے ملک کی حفاظت کرنی چاہیے ۔ ہم سب مل کر آج یہ عہد کریں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مقصد کو پورا کریں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

%d bloggers like this:
Verified by MonsterInsights