A political party that wants to play an important role in the development and construction of Pakistan along with the rights of the Meo Nation.

جب ہر طرف نور ہی نور تھا،اعجازخاں میو

0 55

جب ہر طرف نور ہی نور تھا

وہ ربیع الاول کاماہ جب ہر طرف نور ہی نور تھا۔ اسلامی تاریخ میں ماہ ربیع الاول کو جو عظمت تقدس ، بزرگی و برتری حاصل ہے ۔وہ صرف اور صرف فخر دو عالم ،سرور کائنات ، فخر موجودات ،صاحب لوح و قلم،سیدِ عرب و عجم ،صبح درخشاں ، مہرِ درخشاں ، ساقی ِ کوثر ، شافعِ محشر،  شاہِ امم، محبوب ِ رب العالمین ، سید المرسلین ،خاتم النبیین ،رحمۃ للعالمین،بشیر و نذیر ، سراج منیر ،امام الانبیاء، ماہِ عرب ،آفتاب عالم حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی بدولت حاصل ہے۔

جب ہر طرف نور ہی نور تھا 

 

حضورﷺکی تشریف آوری

۔ یہ وہ بابرکت اور بہار آفریں مہینہ ہے،جب ہر طرف نور ہی نور تھا۔حضور کی آمد سے چمنستان دہر کی مرجھائی ہوئی کلیاں کھل اٹھیں ،خزاں رسیدہ گلستان سر سبز و شاداب ہو گئے ۔کسی عرب شاعر نے کی خوب عکاسی کی ہے ۔ یعنی اسلام میں اس ماہ مبار ک کو خاص فضیلت ہے جو بعض اعتبار سے اور مہینوں سے بڑھی ہوئی ہے اور خاص فضیلت ( ظہور قدسی ) یعنی  آپ ﷺ کی تشریف آوری ہے ۔

 

نبی پاک ﷺکی ولادت  بمطابق جدید تحقیق  ۹ ربیع الاول ہے ۔

 جس مہینے میں آپ ﷺ تشریف لائےجب ہر طرف نور ہی نور تھا۔ وہ ربیع در ربیع یعنی بہار ہی بہار اور نور ہی نور ہے ۔ ْ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت مختلف مؤرخین اور سیرت نگاروں کی روایات کے مطابق 8، 9 اور12ربیع الاول ہے  ۔ لیکن جدید تحقیق کے مطابق ۹ ربیع الاول ہے ۔ ربیع الاول ‘‘ بمطابق 1 عام الفیل 52 قبل ہجرت ، اپریل 571ء میں محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ کا صرف ظہور قدسی نہیں ہو ابلکہ تاریخ عالم نے نئے سفر کا آغازکیا ۔

 

دعائے خلیل ؑ  پوری ہوئی

آپ ﷺ کی تشریف آوری سے خزاں رسید ہ زندگی میں رشد و ہدایت۔دعائے خلیل پوری ہوئی جب ہر طرف نور ہی نور تھا۔کہ جس کے بعد خزاں نہیں ۔ انسانیت  ظلم و جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم کی روشنی اور توحید کے نور سے منور ہوئی ۔اس نور مبین ﷺ کی آمد سے ذرہ ذرہ اور حیات انسانی کا گوشہ گوشہ جگمگانے لگا ۔محبوب رب العالمین ، سید المرسلین ،خاتم النبیین ﷺ کی آمد سے دعائے خلیل ؑ ،تمنائے کلیم ؑ ا ور نوید مسیحا ؑ پوری ہوئی۔

جب ہر طرف نور ہی نور تھا

 

نبیﷺ کی آمد سے

جب ہرطرف نورہی نورتھاتواس رات آپ ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے ، آتش کدہ فارس بجھ گیا ، دریائے سادہ خشک ہو گیا ، سچ تو یہ ہے کہ ایوان ِ کسریٰ ہی نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکت ِ روم ، اوج ِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے ۔ آتش کدہ فارس ہی نہیں بلکہ آتش کدہ کفر ،آذر کدہ گمراہی سرد ہو کر رہ گئے ۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی ۔ بت کدے خاک میں مل

جب ہرطرف نورہی نورتھا

 

آپکی ذات کائنات پرعظیم احسان

گئے ۔ شیرازہ مجوسیت بکھر گیا ،نصرانیت کے اوراق ِ خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑ گئے ۔
فخر موجودات ِ ، باعث ِ تخلیق ِ کائنات ، شافعِ محشر ،ساقی کوثر، صاحب ِ لوح و قلم ،محمد مصطفی ، احمد ِ مجتبیٰ ﷺ کا ظہور قدسی اور آپ ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری پوری کائنات پر پرور دگار عالم کا سب سے عظیم احسان ہے ۔ آپ ﷺ کی ذات ِ گر امی کائنات میں ہرطرف نورہی نور تھا کاسبب بن گئی۔

 

آپ ﷺ امام الانبیاء والرسل

 

جب ہرطرف نورہی نورتھا

 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اولاد آدم کا خلاصہ ( منتخب اور مقدس ہستیاں ) پانچ ہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضر ت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور میں یعنی حضرت محمد ﷺ اور محمد ﷺ ان میں سب سے افضل مقام پر فائز ہیں ۔جب ہرطرف نورہی نورتھاتونور علی نور تھا(ابن عساکر)

مکہ کامعلم اُمی پکارکہتاہے،لم تقولون مالا تفعلون 

آپ ﷺکی زندگی تمام انبیائے کرام ؑ اور مصلحین عالم سے علانیہ ممتازنظر آتی ہے ۔ تاریخی ہستی کا ثبوت ایک طرف اگر یہ سوال کیا جائے کہ ان اخلاقی واعظوں کا خود عملی نمونہ کیا تھا تودنیا اس کے جواب سے عاجز رہ جائے گی ۔ دنیا کے تمام مصلحین ِ اخلاق میں گوتم بدھ اور مسیح کا درجہ سب سے بڑا ہے ۔ لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہندوستان کا یہ مسلح اعظم ( بودھ ) عملاً کیا تھا ؟

 

کوہ زیتون کے رحیمانہ اخلاق کا واعظ ( مسیح ) دنیا کو اخلاق کا بہترین درس دیتا تھا ۔لیکن اس کی زندگی کا ایک واقعہ بھی اس کے زریں مقولوں کی تائید میں ہم کو معلوم ہے ؟ لیکن مکہ کامعلم اُمی پکار کر کہتا تھا ۔لم تقولون مالا تفعلون (القران )کیوں کہتے ہو وہ جوخود کرتے نہیں ہو
حضوراکرم ﷺ خود اپنی تعلیم کا نمونہ تھے ۔انسانوں کے مجمع عام میں آپ ﷺ جو فرماتے تھے،

 

گھر کے خلوت کدہ میں وہ اسی طرح نظر آتے تھے ۔ اخلاق و عمل کا جو نکتہ دوسروں کو سکھاتے تھے ،وہ خود اس کا عملی پیکر بن جاتے تھے ۔ بیوی سے بڑھ کر انسان کے اخلاق کا اور کوئی رازداں نہیں ہوسکتا۔ چند اصحاب ؓ نے آ کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے درخواست کی کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق بیان کیجئے ۔ انہوں نے پوچھا :
’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ ‘‘

 

آپ ﷺ کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا ۔ سورۃ ن میں ارشاد ربانی’’ انک لعلی خلق عظیم ‘‘اس بات کی عکاسی کرتاہے ۔اسی طرح حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد ۲۵برس تک آپ ﷺ کی خدمت زوجیت میں رہی تھیں۔ زمانہ آغاز وحی میں آپ ﷺ کو ان الفاظ میں تسلی دیتی تھیں ۔’’ ہر گز نہیں ! اللہ کی قسم ! اللہ آپ ﷺ کو کبھی غمگین نہیں کرے گا ،

 

آپ ﷺ صلہ ر حمی کرتے ہیں ،مقروضوں کا بار اٹھاتے ہیں ، غریبوں کی اعانت کرتے ہیں ،مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں ، حق کی حمایت کرتے ہیں ، مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،آنحضرت ﷺ کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہیں تھی ، برائی نہیں کرتے تھے بلکہ در گزر کرتے تھے اور معاف فرمادیتے تھے ۔

 

آپ ﷺ کو جب دو باتوں میں اختیاردیا جاتا تو ان میں جو آسان ہوتی ،اس کو اختیا رفرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو ، ورنہ آپ ﷺ اس سے بہت دور ہوتے ۔آپ ﷺ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملہ میں انتقام نہیں لیا لیکن جو شخص احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتا اللہ تعالیٰ کے لئے اس سے انتقام لیتے تھے ۔آپ ﷺ نے نام لے کر کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہیں کی ۔

 

آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام کو ، کسی لونڈی کو ، کسی عورت کو ،کسی جانور کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا ۔ آپ ﷺ نے کسی کی کوئی درخواست رد نہیں کی اگر وہ ناجائزنہ ہو ۔‘‘
آپ ﷺ جب گھر تشریف لاتے تو نہایت خنداں پیشانی سے ہنستے مسکراتے ہوئے داخل ہوتے ۔ دوستوں میں پائوں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ۔ باتیں ٹھہر ٹھہر کر اس طرح فرماتے تھے کہ کوئی یاد رکھنا چاہے تو رکھ لے ۔

 

آپ ﷺ نہایت نرم مزاج ، خوش اخلاق اور عمدہ سیرت والے تھے ۔ آپ ﷺ کا چہرہ ہنستا ہوا ہوتا تھا ،آپ ﷺ وقار و متانت سے گفتگو فرماتے تھے ،کسی کی خاطر شکنی نہیں کرتے تھے ۔
معمول یہ تھا کہ کسی سے ملنے کے وقت ہمیشہ پہلے خود مصافحہ فرماتے ، اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑ تے جب تک وہ خود نہ چھوڑتا ۔ کوئی شخص جھک کر آپ ﷺ کے کان میں کچھ بات کرتا تو اس وقت تک اس کی طرف سے رخ نہ پھیرتے جب تک وہ خود نہ منہ ہٹا لے ۔

 

جب آپ ﷺ مجلس میں بیٹھتے توآپ کے زانوں کبھی ہم نشینوں سے آگے نکلے ہوئے نہیں ہوتے تھے ۔نبوت سے پہلے جن لوگوں سے آپ ﷺ کے تاجرانہ تعلقات تھے انہوں نے ہمیشہ آپ ﷺ کے حسن سلوک کا اعتراف کیا ہے ، اسی لئے قریش نے متفقہ طور پر آپ ﷺکو امین کا خطاب دیا تھا ۔ نبوت کے بعد بھی گو قریش بغض و کینہ کے جوش سے لبریز تھے تاہم ان کی دولت کے لئے محفوظ مقام حضور ﷺ ہی کا کاشانہ تھا

 

حضور اکرم ﷺ نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو کفار میں جو لوگ آپ ﷺ سے واقف تھے انہوں نے آپ ﷺکو کاذب اور جھوٹ بولنے والاگو یقین نہیں بلکہ یہ سمجھاکہ نعوذ باللہ آپ ﷺ کے حواص درست نہیں ہیں یا یہ کہ ان میں اب شاعر انہ تخیل پرستی آگئی ہے ، اسی بنا پر انہوں نے آپ ﷺ کو مجنون کہا، مسحور کہا، شاعر کہا لیکن جھوٹا نہیں کہا ۔

 

ابو جہل کہا کرتا تھا کہ : محمد ﷺ میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا البتہ تم جو کہتے ہو اس کو صحیح نہیں سمجھتا ۔ اسی طرح جب قیصر روم نے جب اپنے دربار میں ابو سفیان سے آپ ﷺ بد عہدی کے متعلق پوچھا تو ابو سفیا ن نے مجبور ا ً نفی میں جواب دیا ۔نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ عبداللہ بن ابی العسماء نے آنحضرت ﷺ سے کچھ معاملہ کیا اور آپ ﷺ کو بٹھا کر چلے گئے

 

کہ آکر حساب کردیتا ہوں ، اتفاق سے ان کو خیال نہ رہا تین دن کے بعد آئے تو حضور اکرم ﷺ اسی جگہ تشریف رکھتے تھے ۔ان کو دیکھ کر فرمایا کہ میں تین دن سے یہاں تمہارے انتظار میں بیٹھا ہوں ۔آپ ﷺ انتہائی درگزر فرمانے والے تھے ۔ یہاں تک کہ قریش نے آپ کو گالیاں دیں ، مارنے کی دھمکی دی ، راستوں میں کانٹے بچھائے ، جسم اطہر پر نجاستیں ڈالیں ، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا ،

 

آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیں لیکن آپ ﷺ نے کبھی ان باتوں پر برہمی ظاہر نہیں فرمائی ۔ جب کہ غریب سے غریب آدمی بھی جب کسی مجمع میں جھٹلایا جاتاہے تووہ غصہ سے کانپ اٹھتاہے ۔ ایک صاحب جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو ذی المجاز کے بازار میں اسلام کی دعوت دیتے ہوئے دیکھا تھا ، بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ فرما رہے تھے ۔ ’’ لا الٰہ الا اللہ کہو تو نجات پاجائو گے ۔

 

پیچھے پیچھے ابو جہل تھا ، وہ آپ ﷺ پر خاک اڑا اڑا کر کہہ رہا تھا : ’’ لوگو اس شخص کی باتیں تم کو اپنے مذہب سے بر گشتہ نہ کردیں،یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے دیوتائوں لات و عزیٰ کو چھوڑ دو۔ ‘‘ راوی کہتا ہے کہ آپ ﷺ اس حال میں اس کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہ تھے ۔
آپ ﷺ کے لئے دشمنوں سے انتقام کاسب سے بڑا موقع فتح مکہ کا دن تھا لیکن آپ ﷺنے ان سب کو یہ فرماتے ہوئے معاف کردیا کہ :

 

’’ تم کو ملامت نہیں جائو تم سب آزاد ہو ۔ ‘‘
اسی طرح ہندہ ابو سفیان کی بیوی جس نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ چاک کیا تھا اور دل جگر کے ٹکڑے کئے تھے ۔ فتح مکہ کے دن نقاب پوش آئیں کہ آنحضرت ﷺ پہچان نہ سکیں اور بے خبری میں بیعت اسلام کرکے سند امان حاصل کرلیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے ہندہ کو پہچان لیا لیکن اس واقعہ کا زکر تک نہ کیا ۔ہندہ اس کرشمہ اعجاز سے متاثر ہو کر بے اختیار بو ل اٹھی :

 

یا رسول اللہ ﷺ : آپ ﷺ کے خیمہ سے مبغوض کوئی میری نگاہ میں نہ تھا لیکن آج آپ ﷺ کے خیمہ سے کوئی زیادہ محبوب خیمہ میری نگا ہ میں دوسرا نہیں ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

%d bloggers like this:
Verified by MonsterInsights