A political party that wants to play an important role in the development and construction of Pakistan along with the rights of the Meo Nation.

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ، حضرت ابوبکرصدیق کی بیٹی اور عبداللہ بن زبیرکی والدہ ہیں۔

1 85

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ کی ساتھی۔ حضور اکرم ﷺ کی خواہر نسبتی ، سیدہ عائشہ صدیقہ بہن ، عشرہ مبشرہ حضرت زبیر بن العوام؄ کی زوجہ محترمہ ، حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ جن کی پیدائش پرنعرۂ تکبیر پر مدینہ منورہ کے دشت و جبل گونج اٹھے تھے کی والدہ ماجدہ ہیں ۔

 اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ کے وقت لقب

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ کے وقت جرأت ایمانی کی پیکرکونبیﷺ نےذات النطاقین کے لقب سے نوازا ۔ آپ وہی خاتون ہیں جس نے اپنے لخت جگر کی دردناک شہادت کے موقع پر صبر و رضا اور جرأت ایمانی کا ثبوت دیا وہ ان کی کتاب ِ زندگی کا ایک تابناک ورق ہے ۔ حضرت اسماء بنت صدیق؅ ہجرت نبوی سے ستائیس برس قبل مکہ معظمہ میں پیداہوئیں۔ حضرت اسماء؅ کا نکاح حضرت زبیر بن العوام؄ سے ہوا۔

حضرت زبیر بن العوام؄ ۔

سرکارِ دوعالم ﷺکے پھوپھی زاد بھائی اور ام ا لمومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ؅ کے بھتیجےتھے ۔ہجرت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق؄ کے مکان میں جب حضور ﷺ کا توشہ سفر ایک تھیلے میں رکھا گیا اور اس تھیلے کا منہ باندھنے کے لیے کچھ نہ ملا تواسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ کے وقت اپنی کمر کے کپڑے کے ٹکڑے کرکے باندھ دیا۔

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ

جنہیں نبی ﷺ نے ہجرت کے موقعہ پر

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ کے دوران نبیﷺ نےذات النطاقین کے لقب سے نوازا ۔ آپ وہی خاتون ہیں جس نے اپنے لخت جگر کی دردناک شہادت کے موقع پر صبر و رضا اور جرأت ایمانی کا ثبوت دیا وہ ان کی کتاب ِ زندگی کا ایک تابناک ورق ہے ۔ حضرت اسماء بنت صدیق؅ ہجرت نبوی سے ستائیس برس قبل مکہ معظمہ میں پیداہوئیں۔ حضرت اسماء؅ کا نکاح حضرت زبیر بن العوام؄ سے ہوا۔

 اسماء بنت ابوبکر صدیق اورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما ہجرت مدینہ

حضورﷺ کے ہجرت پر روانہ ہونے کے وقت ہم نے جلدی جلدی کچھ کھانا بنا کر ایک تھیلے میں رکھ دیالیکن اُسے باندھنے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں تھی چنانچہ بڑی بہن اسماءؓبنت ابوبکرصدیق جرات ایمانی کی پیکر نے اپنے نطاق کے(کمر سے باندھنے والا کپڑا) دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑے سے تھیلے کا منہ باندھ دیا۔ یہی وہ اعزاز تھا،

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ

 

جس کی بنا پر وہ’’ذات النطاقین‘‘

کے نام سے یاد کی جاتی ہیں ۔‘‘ حضرت اسماء؅ نے اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام ؄کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔ ہجرت کے بعد اتفاق سے ایک عرصہ تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہ ہوئی ۔

مدینہ میں مہاجرین کا پہلا بچہ جسکی پیدائش پر اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی

 ۔ یہی دن تھے کہ 1 ہجری میں حضرت اسماء؅ بنت ابوبکرصدیق جرات ایمانی کی پیکرکے بطن سے حضرت عبداللہ بن زبیر؄ پیدا ہوئے ۔ گویا ہجرت کے بعد وہ مسلمانوں کے نومولودِ اول تھے ـ  مسلمانوں کو حضرت عبداللہ؄ کی ولادت پر بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے خوشی سے اس قدر زور سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے کہ دشت وجبل گونج اٹھے۔

 

 

یہودی سخت شرمندہ ہوئے:

کیونکہ ان کے دجل وتلبیس کا پردہ چاک ہوگیا ۔ حضرت اسماء؅بچے (عبداللہ ؓ ) کو گود میں لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔آپﷺ نے بچے کو اپنی آغوش مبارک میں لے لیا ۔ایک کھجور اپنے دہن مبارک میں ڈال کر چبائی اور پھر اسے اپنے لعاب دہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ ؓ کے منہ میں ڈالا ۔

 

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے اپنی کنیت ام عبداللہ کیوں رکھی ؟

اس کے بعد حضورﷺنے بچے کے لئے دعائے خیر و برکت مانگی ۔ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ؅نے اپنے انہی بھانجے کے نام پر اپنی کنیت ’’ امِّ عبد اللہ ‘‘ رکھی تھی ۔قبا میں قیام کے دوران پہلے چند سال حضرت اسماء ؅ نے اپنے شوہر حضرت زبیر؄ کے ساتھ بڑی تنگدستی اور مفلسی میں گزارے تھے ۔

 

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ کے بعدذریعہ معاش

شروع شروع میں آ پ ؅نے حضور ﷺ کی طرف سے دی گئی زمین کے ٹکڑے جو مدینہ سے تین فرسخ دور تھا پر کاشت کرکے اپنی معاش کا سامان پیدا کیا ۔حضرت اسماء ؅ کھجور کی گٹھلیاں جمع کر تیں انہیں کوٹ کر اونٹ کو کھلاتیں ۔گھوڑے کے لئے گھاس مہیا کرتیں ،پانی بھرتیں ، مشک پھٹ جاتی تو اس کو سیتیں ۔

اسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہ

حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق  کوروٹی صحیح طرح سے بنانا نہیں آتی تھی۔

ان کاموں کے علاوہ گھر کا دوسرا کام بھی خود ہی کرتیں ۔ کہتے ہیں حضرت اسماء؅روٹی اچھی طرح نہ پکاسکتی تھیں۔ پڑوس میں چند انصاری خواتین تھیں وہ ازراہ ِ محبت و اخلاص ان کی روٹیاں پکا دیتی تھیں ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکر صدیق؄ نے انہیں ایک غلام دیا ۔جس نے گھوڑے اور اونٹ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی۔اس طرح حضرت اسماء ؅ کی مصیبت کم ہوئی ۔

اعلی شخصیت کی مالک ماں اوراسکابیٹا

حضرت اسماءبنت ابوبکرصدیق کو حضورﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ خرچ ناپ تول کر کرے ورنہ اللہ تعالیٰ بھی نپی تلی روزی دے گا۔ اس کے بعد حضرت اسماء؅آسودہ حال ہوئیں تو انہوں نے اپنی سادگی کو ترک نہ کیا ۔حضرت اسماء حق پرستی کی پیکرکے فرزند عبداللہ بن زبیر ؄ تاریخ اسلام میں بڑی اہم شخصیت کے مالک ہیں۔

 

حضرت عبداللہ بن زبیرشجاعت اوربے خوفی کامثالی نمونہ:

علم وفضل ، زہد و اتقا ، حق گوئی ،شجاعت اور بے خوفی کا ایک مثالی پیکر ہیں  اور آپ ؓ کی شہادت تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے ۔ اس موقع پر حضرت اسماء بنت صدیق؅ نےجس حق پرستی ،بے خوفی ،صبر و رضا اور جرأت ایمانی کا ثبوت دیا وہ ان کی کتاب ِ زندگی کا ایک تابناک ورق ہے ۔

اسماء بنت ابوبکرصدیق اور ہجرت مدینہ

 

وہ جبل شجاعت جس نے آخری دم تک یزیدکی بیعت نہ کی 

سیدنا امام حسین ؄ کی المناک شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ نے یزید،مختار ثقفی،عبدالملک اور خوارج کا مقابلہ جس استقامت اور شجاعت سے کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ سیدنا امام حسین ؄ کی طرح انہوں نے بھی مرتے دم تک یزید کی بیعت نہ کی اور پھر اس کی موت کے بعد بھی اس کے جانشینوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے ۔

اسماء بنت ابوبکرصدیق اورہجرت مدینہ

عراق وحجازکامتفقہ خلیفہ حضرت عبداللہ بن زبیر

چھیاسٹھویں  ہجری میں عراق اور حجاز وغیرہ کے لوگوں نے انہیں متفقہ طور پر اپنا خلیفہ منتخب کیا۔73ہجری تک انہوں نے مکہ معظمہ میں اپنا علم خلافت بلند رکھا۔ ان چھ سالوں میں انہیں بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑا ۔ ایک طرف مختار بن ابی عبیدثقفی کی زبردست جماعت تھی اور دوسری طرف بنو امیہ کی قاہر قوت ۔

جب حججاج بن یوسف ثقفی نے مکہ معظمہ کا محاصرہ کرلیا

آپ ؓ بڑے عزم اور حوصلہ کے ساتھ ان دونوں محاذوں پر لڑتے رہے ۔جب عبد الملک بن مروان نے مسند حکومت سنبھالی تو اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ عبد اللہ بن زبیر؄کی خلافت کو ختم کرکے دم لے گا ۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے ایک آزمودہ کار جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو مقرر کیا ۔ حجاج بن یوسف نے ایک زبردست فوج کے ساتھ یکم ذی الحجہ 73ہجری کو مکہ معظمہ کا محاصرہ کر لیا ۔

حضرت عبد اللہ بن زبیرنے 6ماہ تک اموی فوج کومکہ پرقابض نہیں ہونے دیاتھا۔

حضرت عبد اللہ بن زبیر ؄نے بے مثال استقامت دکھائی اور چھ ماہ تک اموی فوج کو مکہ معظمہ پر قابض نہ ہو نے دیا ۔ حجاج نے محاصرہ اس قدر سخت کیا کہ مکہ میں اناج ایک دانہ بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ اس نے بیت اللہ کی عزت و حرمت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور منجنیق سے کعبۃ اللہ پر مسلسل پتھر برسائے ۔

 

عبداللہ بن زبیر بے خوف صحابی

حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ پتھروں کی بارش میں بھی اس انہماک سے نماز پڑھتے تھے کہ کبوتر

ان کے کندھوں اور سر پر آکر بیٹھ جاتے تھے ۔ محاصرے کی شدت اور خوراک کی قلت سے تنگ آکر آپ ؓ کے اکثر ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج بن یوسف سے جا ملے ۔ حتیٰ کہ ان کے اپنے فر زندوں نے بھی بے وفائی کی اورحجاج بن یوسف کے پاس جاکر امان کے طالب ہوئے ۔

 

حضرت عبد اللہ بن زبیرکی عمراسوقت 73سال تھی

لیکن اس 73سال کے بوڑھے شیر نے بنو امیہ کے اقتدار کو تسلیم نہ کیا ۔ دوران محاصرہ ایک دن حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ اپنی ضعیف العمر والدہ حضرت اسماءبنت ابوبکرصدیق اورہجرت مدینہ  کے وقت حضورسے لقب پانیوالی کی مزاج پرسی کے لئے حاضر خدمت ہوئے ۔وہ کچھ علیل تھیں ۔دوران گفتگو آپ ؓ کے منہ سے نکل گیا کہ اماں جان ! موت میں بڑی راحت ہے ۔

 

بیٹے میں تمہارا انجام دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں

بولیں شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے (کہ ضعیف العمری کے دکھوں سے نجات پا جائوں ) لیکن بیٹے میں تمہارا انجام دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں تاکہ اگر تمہیں شہادت نصیب ہو تواپنے ہاتھوں سے تمہارا کفن دفن کروں اور اگر تم فتح پائو تو میرا دل ٹھنڈا ہو ۔اس واقعہ کے دس دن بعد جب گنتی کے صرف چند ساتھی رہ گئے تو آپؓ آخری بار حضرت اسماء؅ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کی :

 

ایسی ماں جس نے اپنے بیٹے کوہتھیار ڈال دینے منع کردیا

اماں جان ! میرے ساتھیوں نے بے وفائی کی ہے ۔اب سوائے چند جاں نثاروں کے کوئی بھی میرا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ۔آپ کی کیا رائے ہے ؟ اگر ہتھیار ڈال دوں تو ہو سکتا ہے کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو امان مل جائے ۔ ‘‘ حضرت اسماء ؅نے جواب دیا: ’’ اے میرے فرزند ! اگر تم حق پر ہو تو مردوں کی طرح لڑ کر رتبۂ شہادت پر فائز ہو جائو ۔

 

بیٹاحق کیلئے مرجانامگرکسی قسم کی ذلت برداشت نہ کرنا

اور کسی قسم کی ذلت برداشت نہ کرو۔ اگر یہ تمہارا سب کچھ دنیا طلبی کے لئے تھا تو تم سے برا کوئی شخص نہیں جس نے اپنی عاقبت بھی خراب کی اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔ ‘‘ایک اور روایت میں حضرت اسماء ؅سے یہ الفاظ منسوب ہیں: ’’ بیٹا! قتل کے خوف سے ہرگز کوئی ایسی شرط قبول نہ کرنا جس میں تم کو ذلت برداشت کرنی پڑے ۔

 

میں حق وصداقت کے لئے لڑا اور حق وصداقت کے لئے ساتھیوں کو لڑایا ۔

خدا کی قسم ! عزت کے ساتھ تلوار کھاکر مرجانا اس سے بہتر ہے کہ ذلت کے ساتھ کوڑے کی مار برداشت کی جائے ۔ ‘‘ عبداللہ بن زبیر ؄نے جواب دیا : ’’ اماں جان ! میں حق وصداقت کے لئے لڑا اور حق وصداقت کے لئے ساتھیوں کو لڑایا ۔اب آپ سے رخصت ہو نے کے لئے آیا ہوں ۔ ‘‘ حضرت اسماء ؅نے فرمایا: ’’

 

نا موافق حالات اور ساتھیوں کی بے وفائی سے دشمنوں سے دب جا نا  اہل حق کا شیوہ نہیں

بیٹا ! اگر تم حق پر ہو توحالات کی نا موافقت اور ساتھیوں کی بے وفائی کے سبب دشمنوں سے دب جا نا شریفوں اور دینداروں کا شیوہ نہیں ۔ابن زبیر ؄نے عرض کیا: ’’ اماں جان! میں موت سے نہیں ڈرتا ۔صرف یہ خیال ہے کہ میری موت کے بعد دشمن میری لاش کا مُثلہ کریں گے اور صلیب پر لٹکائیں گے جس سے آپ کو رنج ہو گا ۔ اسماء بنت ابوبکر صدیق نے فرمایا :

 

راہ حق میں تلواروں سے قیمہ ہو جانا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے

بیٹے جب بکری ذبح کر ڈالی جائے تو پھر اس کی کھال کھینچی جائے یا اس کے جسم کے ٹکڑے کئے جائیں ، اسے کیا پرواہ ؟ تم اللہ پر بھروسہ کرکے اپنا کام کیے جائو ،راہ حق میں تلواروں سے قیمہ ہو جانا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے ۔ موت کے خوف سے غلامی کی ذلّت کبھی قبول نہ کرنا ۔ ‘‘ اپنی عظیم ماں کے حوصلہ افزاء کلمات سن کر ابن زبیر ؄ پر رقت طاری ہو گئی ۔

 

وہ ماں جواپنے بیٹے سے بھی کہیں بہادُرتھی:

اور فرطِ محبت و عقیدت سے انہوں نے اپنی والدہ کا سر چوم لیا۔ پھر عرض کیااماں جان !میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ راہ حق میں مردانہ وار لڑکر جان دوں لیکن آپ سے مشورہ ضروری سمجھا تاکہ میرے مرنے کے بعد آپ رنج و غم نہ کریں ۔ الحمد للہ ! میں نے آپ کو اپنے سے بڑھ کر ثابت قدم اور راضی برضا پایا ۔ آپ کی با توں نے میرا ایمان تازہ کر دیا ہے ۔

 

آج تک میں نے جو کچھ کیا وہ سب حق کو بلند کرنے کے لیے تھا

آج میں ضرور قتل ہو جائوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے قتل کے بعد بھی آپ صبر و شکر سے کام لیں گی۔ خدا کی قسم !میں سچ عرض کرتا ہوں کہ آج تک میں نے جو کچھ کیا وہ سب حق کو بلند کرنے کے لیے تھا ۔میں نے کبھی برائی کو پسند نہیں کیا ،کسی مسلمان پر ظلم نہیں کیا،کبھی بد عہدی نہیں کی ،کبھی امانت میں خیانت نہیں کی ۔اپنے عُمّال کا کڑا محاسبہ کیا

 

بخدا !میں دین کے آگے دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں

اور اپنی حدود خلافت میں جہاں تک بن پڑا عدل جاری کیا ۔لوگوں سے خدا اور رسول ﷺکے احکام کی تعمیل کروائی اور اعمالِ بد سے انہیں روکا ۔ بخدا !میں دین کے آگے دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں۔اللہ کی رضا کے سوا مجھے کوئی شے مطلوب نہیں ۔‘‘ پھر آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا،الٰہی ! میں نے یہ باتیں فخر کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اپنی والدہ محترمہ کی تسکین اور اطمینان کے لیے کہی ہیں ۔ 

 

حضرت اسماء بنت ابوبکرصدیق نے فرمایا: ’’ بیٹے! تم اللہ کی راہ میں جان دو

میں ان شاءاللہ صابر و شاکر رہوں گی ۔ اب آگے آئو تاکہ آخری بار تمہیں پیار کر لوں ۔ ‘‘ حضرت عبداللہ بن زبیر ؄ نے تلوار سونت لی اور رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے ۔کافی دیر تک دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے ۔

اسماء بنت ابوبکرصدیق اورہجرت مدینہ

حضرت عائشہ صدیقہ کالاڈلا بھتیجاشہید ہوا

آخر کا ر زخموں سے چور چور ہو کر سیدنا صدیق اکبر؄ کا یہ اولوالعزم نواسہ اور حضرت اسماء؅ کا لخت جگر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا ۔ ‘‘ حضرت اسماء؅کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے بیٹے حضرت منذر بن زبیر ؄ عراق کی فتح کے بعد مال غنیمت کے حصے میں سے کچھ زنانہ کپڑے بھی لائے تھے ۔

 

حضرت اسماء؅کمال درجے کی عابدہ اور زاہدہ تھیں

انہیں لے کر اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے یہ کہہ کر کپڑے قبول کرنے ْْْْْْْْْْْْْْسے انکار کردیا کہ مجھے تو موٹا کپڑا پسند ہے۔حضرت اسماء؅کمال درجے کی عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ کثرت عبادت کی وجہ سے ان کے تقدس کاعام شہرہ ہوگیا ۔ اور طرح طرح کے مریض ان کے پاس دعائے خیر کرانے آتے تھے ۔

 

حضرت اسماء؅بنت ابوبکرصدیق مریض کیلئے دعاکرتیں توصحتیاب ہوجاتا

اگر کوئی بخار کا مریض ان کے پاس آتا تو اسکے لئے دعا کرتیں اور پھر اس کے سینے پر پانی چھڑکتیں ، اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دیتا ۔ فرمایا کرتی تھیں ’’ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ بخار نارِ جہنم کی آگ ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔‘‘ گھرکاکوئی آدمی بیمار ہوتا توآنحضرت ﷺ کا جبہ (جس کوحضرت عائشہ؅نے وفات کے وقت ان کے سپرد کیا تھا) دھوتی اور اس کا پانی پلاتی تھیں

 

پہلا حج آنحضرت ﷺ کے ساتھ کیا تھا

اس سے بیمار کوشفا ہوجاتی تھی۔ حضرت اسماء ؅نے کئی حج کیے۔پہلا حج آنحضرت ﷺ کے ساتھ کیا تھا ۔اس میں جوکچھ دیکھا تھا ان کوبالکل یاد تھا۔چنانچہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے بعد جب حج کے لیے آئیں اور مزدلفہ میں ٹھہریں تورات کونماز پڑھی پھراپنے غلام سے پوچھا: چاند چھپ گیا۔ اس نے کہا نہیں۔

 

حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق کی پیاری باتیں

جب چاند ڈوب گیا توبولیں کہ اب رمی کے لیے چلو۔رمی کے بعد پھرواپس آئیں اور صبح کی نماز پڑھی۔ اس نے کہا آپ نے بڑی عجلت کی۔فرمایا آنحضرت ﷺنے پردہ نشینوں کواس کی اجازت دی ہے ۔ جب کبھی حجون سے گذرتیں توکہتیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہاں ٹھہرے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس بہت کم سامان تھا۔ہم نے اور عائشہ؅اور زبیر ؄ نے عمرہ کیا تھا۔

 

حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق کی جنگوں میں شرکت

اور طواف کیا تھا۔ حضرت اسماء؅بہت نڈر اور شجاع تھیں ۔ ایک روایت کے مطابق حضورﷺکے وصال کے بعد وہ اپنے شوہر اور فرزند کے ساتھ شام کے میدانِ جہاد میں تشریف لے گئیں اور کئی دوسری خواتین کی طرح یرموک کی ہولناک لڑائی میں جنگی خدمات انجام دیں ۔ حضرت اسماء؅علم وفضل کے اعتبار سے بھی بڑا درجہ رکھتی تھیں ۔آپ؅ سے چھپن احادیث مروی ہیں ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
1 تبصرہ
  1. […] ہر طرف نور ہی نور تھا حضورکی اونٹنیاسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہابوذر تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گےجانورکی نہیں منفی […]

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

%d bloggers like this:
Verified by MonsterInsights