A political party that wants to play an important role in the development and construction of Pakistan along with the rights of the Meo Nation.

حضورکی اونٹنی

حضورکی اونٹنی ایوب انصاریؓ کےدروازےپرکیوں رُکی تھی اسکے پیچھے شاہ یمن کے ایک ہزارسال کے طاقتورجذبات تھے۔

1 31

Table of Contents

حضورکی اونٹنی ایوب انصاریؓ کےدروازےپرکیوں رُکی؟

حضورکی اونٹنی ایوب انصاریؓ کےدروازےپرکیوں رُکی، داستان حضرت براء بن عازب اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہمااس طرح بیان کرتے ہیں۔کہ جب حضورمدینہ  تشریف لائے تو حبشیوں نے بھی آپ کی آمدپرخوشی میں نیزہ بازی کے کرتب دکھائے ۔ حضورکی اونٹنی بڑے شان و شوکت سے گزرہی تھی اور ہر کوئی چاہتا تھا وہ اونٹنی کی مہار پکڑلے۔ لیکن حضور یہی فرماتے تھے کہ اس کو چھوڑ دو یہ منجانب اللہ مامور ہے ۔بالآ خر اونٹنی محلہ بنی النجار میں اس مقام پر بیٹھ گئی جہاں مسجد نبوی کا دروازہ ہے ۔

حضورکی اونٹنی

صدیوں پہلے شاہ یمن کے حضورﷺ کیلئے جذبات۔

حضورکی اونٹنی ایوب انصاریؓ کےدروازےپربیٹھ گئی تھی اسکے پیچھےدس صدیاں پہلے سے شاہ یمن کے جذبات تھے،اس لیےحضورﷺ کی اونٹنی اٹھی اور حضرت ابو ایوب انصاری؄ کے دروازے پر بیٹھ گئی۔مگر حضورﷺا ونٹنی سے نہ اترے کچھ دیربعد اونٹنی اٹھی اور حضرت ابو ایوب انصاری کے دروازے پربیٹھ گئی۔کچھ دیر بعد اٹھ کر پہلی جگہ آکر بیٹھ گئی اور گردن زمین پر ڈال دی ۔ اس وقت حضورﷺاونٹنی سے اترے اور حضرت ابو ایوب انصاری؄ آپ ﷺ کاسامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے ۔

حضورﷺکا طبعی میلان بھی اسی طرف تھا ۔
حضورکاطبعی میلان بھی یہی تھاآپکی کی اونٹنی ایوب انصاریؓ کےدروازےپرہی رکے،تاکہ آپﷺ بنی النجار ہی میں اتریں جو آپﷺ کے دادا عبدالمطلب کے ماموں ہیں اور اپنے نزول سے ان کو عزت اور شرف بخشیں ۔لیکن حق جل شانہ نے آپﷺ کی اس خواہش کو ایک معجزانہ طریقے سے پورا فرمایا کہ۔ اونٹنی کی لگام آپﷺ کے ہاتھ سے چھڑا دی گئی ۔کہ آپﷺاپنے ارادہ اور اختیار سے کسی جانب لگام کو حرکت نہ دے سکیں اور نہ اپنی طرف سے کسی مکان کو نزول کے لئے مخصوص فرمائیں ۔

 شاہ یمن کے جذبات کی طاقت۔

تاکہ کسی کا دل بھی نہ دکھے اور آپﷺکا کوئی ذاتی ارادہ نہیں بلکہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔اونٹنی اللہ کی جانب سے مامور تھی ۔جہاں اللہ کی طرف سے حکم ہوگا وہیں ٹھہرے گی۔اللہ تعالیٰ نے آپﷺکی خواہش کو بھی پورا کردیا اورصحابہ کے لئے ایک معجزہ بھی ظاہر کردیا ۔جس کی وجہ سے وہ آپس میں تفرقہ ہونے سے بھی پاک رہے۔ یہاں تک کہ سب نے خوب سمجھ لیا کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؄ کے گھر کی تخصیص  اللہ کی طرف سے ہے۔

حضرت ابو ایوب انصاری؄ نے آپﷺسے اصرار کیاکہ آپ ﷺبالا خانہ میں رونق افروز ہوں اور ہم نیچے کے مکان میں رہیں ۔آپ نے اس خیال سے کہ ہر وقت آپﷺکی خدمت میں لوگوں کی آمدورفت رہے گی ۔اب اگر حضرت ابو ایوب؄ نیچے کے مکان میں رہیں تو ان کے اہل خانہ کو اس آمدورفت سے تکلیف ہوگی۔اس لئے بالا خانہ کے قیام کو منظور نہیں فرمایا ۔ نیچے ہی قیام کو پسند فرمایا۔

 

۔ایک دفعہ شاہ یمن تبع الحمیری کا گزر مدینہ سے ہوا تو چار سو علماء تورات بھی اس کے ساتھ تھے ۔سب علماء نے بادشاہ سے استدعا کی کہ ہمیں اس سر زمین پررہ جانے کی اجازت دی جائے ۔بادشاہ نے اس کا سبب دریافت کیا تو علماء نے کہا کہ انبیا ء علیہم السلام کے صحیفوں میں لکھا ہوا پا تے ہیں کہ اخیر زمانہ میں ایک نبی پیدا ہونگے۔ محمدﷺان کا نام ہوگا اور یہ سرزمین انکا دارلہجرت ہوگی

بادشاہ نے ان سب کو وہاں قیام کی اجازت ہی نہ دی بلکہ انکے لئے علیحدہ علیحدہ مکان تیار کروائے اور ان کے نکاح کروائے۔اور ہر ایک کو مال عظیم دیا ۔ ان میں سے ایک مکان خاص حضورﷺکے لئے تیار کروایا ۔کہ جب نبی آخرالزماںﷺیہاں ہجرت فرماکر آئیں تو اس مکان میں قیام فرمائیں ۔ اس کے علاوہ اس نے حضورﷺکے نام ایک خط لکھا جس میں اپنے اسلام واشتیاق دیدار کو ظاہر کیا ۔

خط کا مضمون یہ تھا ۔ ترجمہ: ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔اگر میری عمر ان کی عمر تک پہنچی تو میں ضرور ان کا معین اور مدد گار ہوں گا اور ان کے دشمنوں سے جہاد کروں گا اور ان کے دل سے ہر غم کو دور کروں گا ۔تبع نے اس خط پر ایک مہر بھی لگائی اور ایک عالم کے سپرد کیا کہ تم اس نبی آخرالزماں کا زمانہ پائو تو میرا عریضہ پیش کردینا ورنہ اپنی اولاد کو یہ خط سپرد کرکے یہی وصیت کر دینا جومیں تم کو کررہا ہوں ۔

 

حضرت ابو ایوب انصاری اسی عالم کی اولاد میں سے ہیں اور یہ مکان بھی وہی مکان تھا جسکو تبع شاہ ِ یمن نے خاص اسی غرض سے تعمیر کرایا تھا کہ جب حضورﷺہجرت کرکے آئیں تو اسی مکان میں اتریں۔ باقی انصا ر ان چارسو علماء کی اولاد میں سے ہیں ۔ چنانچہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی مکان کے دروازے پر جا کر ٹھہری ۔شیخ زین الدین مراغی فرماتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔

 

حضورکی اونٹنی

 

کہ مدینہ منورہ میں حضورﷺحضرت ابو ایوب انصاری؄ کے گھر نہیں اترے تھے بلکہ اپنے مکان پر اترے تھے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری؄ کا قیام تو اس مکان میں محض آپﷺ کی تشریف آوری کے انتظار میں تھا۔کہا جاتا ہے کہ حضور ﷺکی تشریف آوری کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری؄ نے وہ عریضہ جس میں وہ اشعار لکھے ہوئے تھے تبع کی طرف سے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔

 

تبع الحمیری اور اس کے چار سو علماء کتنے عظیم اور کتنے سعادت مند تھے
کتنے سعادت مند ہیں وہ لوگ جن کی تمنائیں بر آتی ہیں اور برگ و بار لاتی ہیں اور کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جن کی خواہشیں اور دعائیں مقبول ِ بارگاہ ہوجاتی ہیں ۔ تبع الحمیری اور اس کے

چار سو علماء کتنے عظیم اور کتنے سعادت مند تھے کہ ایک ہزار سال نبی آخر الزمانﷺکے انتظار میں گزار دئیے ۔

دس صدیوں پر محیط فاصلے نہ ان کی آرزوئوں میں کمی کرسکے اور نہ ان کے ارادوں کو متزلزل کرسکے۔ انتظار کے لمحات کتنے کٹھن اور جا ں گسل ہوتے ہیں ۔یہ وہ مقام ہے جہاں آفتاب سعادت طلوع ہونے والا ہے اور جس کی آمد سے دنیا بھر کی ظلمتیں چھٹ جائیں گی ۔ ہر طرف نور ہی نور ہوگا اور ساری کائنات ارضی سعادتوں اور برکتوں سے معمور ہوجائے گی ۔

 

اے ارض ِ اقدس ! یہاں بدر منیر طلوع ہوگا جس کی چاندنی سے ساری فضا پر نور ہوجائے گی اور دلوں کے اندھیرے کافو ر ہوجائیں گے ۔یہ شخص اسی وارفتگی اور دل بستگی کے ساتھ یثرب کی گلیوں اور بازاروں میں گشت کرتا ہے اور تعظیم بجا لاتا ہے ۔یوں چل رہاہے وہ گویا کسی مقدس شے کا طواف کررہا ہے۔عربی کے دل آویز اشعار پڑھتا جاتا ہے

 

 ۔معلوم ہوتا ہے وہ کسی اَن دیکھے اور نامعلوم محبوب کی تعریف میں رطب اللسان ہے وہ کہتا ہے ۔شھدت علیٰ احمد انہٗوجاھدت با لسیف اعداء ہٗرسول من اللہ باریٗ النسمِوفرّجت عن صدرہ کل غمّفلو مد عمری الیٰ عمرہلکنت وزیراً لہ‘ وابن عمّ ۱۔میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفے ٰ احمد مجتبیٰﷺاللہ کے رسو ل برحق ہیں۔ ۲۔اگر میری عمر ان تک پہنچی تو میں ضرور ان کا معین و مدد گار ہوگا۔

 

اور میں ان کے دشمنوں سے جہاد کروں گا اور ان کے دل سے ہر غم کو دور کردوں گا ۔تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے ،کہ یثرب کے کوچہ و بازار میں وارفتگی کے عالم میں یہ شعر پڑھنے والا شخص’ تبع الحمیری ‘ ہے۔ جس کا اصل نام حمیر بن وردع ہے اور تاریخ میں وہ مَلک تبع کے نام سے مشہور ہے ۔وہ یمن کا شہنشاہ ہے اور کئی بادشاہوں سے برتر و افضل ہے ۔

 

چار دانگ عالم میں اس کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے لیکن آج وہ یثرب کے کوچہ وبازار میں اپنے نادیدہ محبوب کی یاد میں دل فگار ہے۔ وہ پریشان حال پھر رہاہے اور اس کی فوج کے تمام سپاہی ،درباری،وزراء اور امراء بھی عجزو انکسار کی تصویر بنے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔محمد اسحٰق اپنی کتاب ’’ مغازی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ تبع ان پانچ بادشاہوں میں سے ایک تھا جنہوں نے کائنات ارضی پر قبضہ جما رکھا تھا ۔

اس دور میں بھی اس کے پاس بہت بڑا لشکر تھا جس میں ایک لاکھ33 ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیدل سپاہی شامل تھے۔ اس کے دربار میں دانش مند وزراء اور ارکان سلطنت ہر وقت موجود رہتے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی ۔ یہ شہنشاہ ایک بار اپنے لشکر قاہرہ کے ہمراہ گردو نواح کے علاقوں کو فتح کرنے کے لئے یمن سے نکلا اور فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا جب مکہ کے پاس پہنچا تو اہل مکہ نہ اسکے لشکر سے مرعوب ہوئے۔

 

اور نہ کسی فرد نے شان وشوکت سے اس کا استقبال کیا ۔ اس صورت حال سے وہ بہت غضبناک ہوا۔ وزراء میں سے کسی نے اسے بتایا کہ’’ یہ اہل عرب اپنی جہالت پر نازاں ہیں اور چونکہ اس شہر میں کعبۃ اللہ ہے ۔ جسے’’ اَنْ طَھْرا بَیتی ‘‘ کہا گیا ہے۔ اس لئے وہ اسکے پاسبان ہونے کے ناطے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔‘‘ بادشاہ نے غصے میں آکر اس شہر کو تباہ وبرباد کرنے اور اس کے باشندوں کو قتل عام کا حکم دے دیا ۔لیکن اس حکم کے جاری ہوتے ہی اسے ایک پُر اسرار بیماری نے آگھیرا ۔

اس کی ناک ،کان اور منہ سے خون بہنا شرو ع ہوگیا ۔وہ سر کے درد سے بے حال ہوگیا ۔ کئی طبیبوں نے علاج کیا لیکن کوئی علاج بھی کارگر ثابت نہ ہوا ۔ حتیٰ کہ وہ اس بیماری کے باعث موت کے منہ میں جانے لگا ۔ بادشاہ کی بے بسی اور بے چارگی دیکھ کر

حضورکی اونٹنی ایوب انصاریؓ کےدروازےپرکیوں رُکی

ایک صاحب بصیرت شخص سامنے آیا اور اس نے کہا ! ’’ میں بادشاہ کا علاج کرسکتا ہوں ۔

 

بشرطیکہ میں جو بھی سوال کروں اس کا مجھے صحیح جواب دیا جائے۔ ‘‘ بادشاہ نے اس مرد دانا کی شرط مان لی اور الگ کمرے میں چلا گیا۔ یہ سمجھدار بادشاہ سے سوال کرتا رہا اور باد شاہ جواب دیتا رہا ۔جب بادشاہ نے کعبۃ اللہ کو مسمار کرنے اور اہل مکہ کا قتل عام کرنے کے ارادے کا ذکر کیا تو دانائے راز نے کہا کہ ، بادشاہ سلامت یہی تمہاری اصل بیماری ہے ۔

 

اس خیالِ خام کو دل سے نکال دوکیونکہ اس گھر کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جس نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ بادشاہ نے دانا ئے راز کے کہنے پر اپنے مذموم ارادے کو ترک کیا اور سچے دل سے توبہ کی ۔ کہتے ہیں کہ وہ مرد حق پرست بادشاہ کے کمرے سے ابھی باہر نہ نکلا تھاکہ بادشاہ کی اس پراسراربیما ری جاتی رہی اور وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگیا۔۔ اس کے بعد بادشاہ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اہل مکہ کو بہت بڑی ضیافت دی

 

جس میں سبھی چھوٹے بڑے اور ادنیٰ و اعلیٰ شریک ہوئے ۔ضیافت میں پینے کے پانی کی بجائے شہد پیش کیا گیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے نایاب قسم کے ریشم سے کعبۃ اللہ کا غلاف تیار کروایا۔مگر خواب میں اشارہ ہوا کہ یہ مناسب نہیں ۔پھر خوشبو دار کپڑے سے غلاف تیار کروایا ۔ مگر خواب میں وہی اشارہ ہوا ۔تیسرے روز برد یمانی اور حریر ملا کر سات پردوں والا غلاف تیار کروایا۔ اس کے بعد بادشاہ نے تمام بتوں کو نکلوادیا اور خوب تزین وآرائش کی۔

 

دروازہ مقفل کرکے چابی مجاور کے حوالے کردی اور پھر اپنی مہم پر چل پڑا ۔ کئی علاقے فتح کرکے یثرب آپہنچا۔ اہل یثرب مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے شہر کے دروازے مقفل کرکے قلعہ بند ہوگئے۔ کئی ماہ گزرگئے ۔لیکن بادشاہ اپنے لشکر قاہرہ کے باوجود شہر کو فتح اور اہل مدینہ کو مطیع نہ کرسکا ۔ آخر کار اہل شہر کے حالات کی جستجو میں لگ گیا تاکہ کہیں کوئی کمزوری نظر آئے اور اس سے فائدہ اٹھاکر وہ شہر پر حملہ کرسکے ۔

 

ہفتوں اور مہینوں کے محاصرے کے باوجود کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی ۔ایک روز علی الصبح اس نے اپنے لشکر کے خیموں کے باہر کھجور وں کی گھٹھلیاں پڑی دیکھیں تو وہ بہت حیرا ن ہوا ۔کیونکہ اس کے اپنے زادہِ راہ میں کھجوروں کا نام و نشان بھی موجود نہ تھا ۔ اس نے اہل لشکر سے پوچھا تو سپاہیوں نے بتایا کہ رات کے آخری حصے میں یثرب شہر کی فصیل کے اوپر سے کھجوروں سے بھری ہوئی بوریاں پھینک دی جاتی ہیں جنہیں ہم کھالیتے ہیں ۔

 

بادشاہ تبع الحمیری یہ سن کر حیران و پریشان رہ گیا اور کہنے لگا کہ ’’ ہم تو مہینوں سے اس شہر
کے مکینوں کو بھوکا مارنے اور تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔لیکن یہ عجیب لوگ ہیں جو حالت جنگ میںاپنے دشمنوں کے ساتھ دوستوں والا سلوک کررہے ہیں۔بادشاہ گہری سوچ میں پڑ گیا ۔مسئلہ حل نہیں ہورہا تھا ۔آخر کا ر اس نے وجہ دریافت کرنے کے لئے اپنی فوج کے اکابر کو یثرب کے اکابرین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا حکم دیا ۔

جب یہ بات یثرب کے مستند علماء اور احبار تک پہنچی تو انہوں نے کہا۔ ہم دور دراز کے علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں ۔ہم میں کسی کا تعلق خیبر سے ہے اور کسی کا کسی دوسرے علاقے سے، کوئی شام سے آیا ہے اور کوئی مصر سے اور ہم یہودی ہیں ۔ہم نے تورات اور زبور جیسی الہامی کتابوں میں یہ پڑھا ہے۔کہ یہاں نبی آخرالزماںﷺآنے والے ہیں اور ہم یہاں رہ کر ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔

ہماری کتب اور صحائف سماوی کے مطابق پیغمبر آخر الزمان حلیم وکریم اور شفیق ہونے کے ساتھ ساتھ مہمان نواز بھی ہونگے ۔ ہم بھی اپنے آپ کو ان جیسی صفاتِ کریمہ سے متصف کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔تبع الحمیری اہل یثرب کی ان باتوں اور حسنِ سلوک سے بہت متاثر ہوا ۔ اس کے سینے میں سوز وگداز سے معمور دل پگھل گیا اور وہ بے ختیار رونے لگا ۔وہ اس بات سے اثر پذیر ہوا کہ وہ پیغمبر ابھی مبعوث بھی نہیں ہوئے لیکن ان کے اوصافِ کریمہ پر لوگوں نے عمل بھی شروع کردیا ہے ۔

 

وہ روتا جاتا  اور کہتا جاتا تھا کہ کاش وہ  نبی کریمﷺ کے دور مسعود میں ہوتا ۔ اور جب وہ اپنی قوم کے مظالم سے تنگ آکر یہاں تشریف لاتے تو ان کا خدمت گزار ہوتا ۔نبی اکرمﷺ کے بارے میں دل آویز باتیں سن کر اس کا شوقِ دیدار بڑھ گیا۔ اس نے اہل یثرب سے اجازت مانگی کہ وہ اس شہر محبوب کی گلیوں ،بازاروں اور مکانوں کی زیارت کرسکے۔اجازت ملنے پر وہ شہر میں داخل ہوا۔ پورا لشکر اس کے ساتھ تھا ۔آج وہ فاتح نہیں ،مفتوح تھا

لشکر یوں نے یامحمدؐ یامحمدؐکے نعرے لگائے

اسکے شوق  کا یہ عالم تھا کہ درد سے لبریز اور سوز سے معمور اشعار پڑھنے لگا۔ حتیٰ کہ مورخین بتاتے ہیں کہ لشکر یوں نے یامحمدؐ یامحمدؐکے نعرے لگائے۔اور حضورﷺکو یاد کرکے بے حد روئے ۔ تبع الحمیری نے اس کے بعد یثرب کے سارے شہر کو صاف کرایا۔ عالی شان اور خوبصورت عما رتیں تعمیر کرائیں ۔اس کی خواہش تھی کہ وہ یہیں کا ہو رہے اور یہودی علماء کے ساتھ وہ بھی نبی آخرالزّماں کا انتظار کرے لیکن امور سلطنت نے یہ خواہش پوری نہ ہونے دی ۔

 

بعض روایات کے مطابق وہ کافی مدت یہاں مقیم رہا۔ لیکن اس کی عدم موجودگی میں یمن میں بغاوت ہوگئی توواپس جانا پڑا۔اس نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے چارسو علماء کو خوبصورت مکانات بنواکر دئیے اور انہیں زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کیں ۔ان علماء میں سے شامول نامی عالم تھا۔جسے مکان کے ساتھ ساتھ اس کی گزر بسر کے لئے باغات لگوا کر دئیے ۔

 

اس کے بعد اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک خط بھی دیا جس پر اپنی مہر لگا کر بادشاہ نے اسے صندوقچے میں رکھا اور چابی شامول کے حوالے کرکے سخت تاکید کی اگر اسے نبی آخر الزّمانﷺ کا زمانہ اور دیدار پر انوار نصیب ہو تو یہ خط بصد احترام انہیںپیش کردینا اور تمہیں یہ سعادت نصیب نہ ہوسکے تو اپنی اولاد کو تاکید کردینا ۔تاکہ یہ سلسلہ جاری رہے۔

حضرت ابو ایوب انصاری شامول کی اکیسویں پشت میں سے تھے

یہ خط نسل در نسل حضرت ابو ایوب انصاری؄ کے پاس پہنچا ۔۔ وہ انصار جنہوں نے آنحضرتﷺ کی حمایت و مدد کی ،تبع کے آباد کردہ چار سو علماء کی اولاد میں سے تھے :یہی وجہ تھی کہ سرکار دو عالمﷺ کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری؄ کے گھر کے قریب بیٹھ گئی ۔ حضور اکرمﷺ حضرت ابو ایوب انصاری؄ ‘ کے گھر ٹھہرے ۔وہ انصار جنہوں نے آنحضرتﷺ کی حمایت و مدد کی ،تبع کے آباد کردہ چار سو علماء کی اولاد میں سے تھے ۔

انصارمدینہ شاہ یمن کے بسائے ہوئے چارسوعلماء کی اولاد ہیں ۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انصار کوئی معمولی لوگ نہ تھے ۔جب حضورﷺجب مدینہ تشریف لارہے تھے تو حضرت ابوایوب انصاری؄ نے ایک معتبر شخص کے ذریعے وہ مکتوب گرامی حضورﷺکی خدمت میں روانہ کردیا تاکہ وہ جلد از جلد مکتوب الیہ تک پہنچ سکے اور وہ اس بار ا مانت سے سبکدوش ہوسکیں جو صدیوں سے ان کے خاندان میں چلا آرہا تھا۔

شاہ یمن تبع الحمیری کا خط آخر ایک ہزارسال کے بعد نبی پاک کو مل گیا

تبع الحمیری کے جذبات صدیوں بعد بھی محمدﷺ تک پہنچ گئے

ہجرت کے دوران نبی اکرمﷺ ابھی قبیلہ بنی سلیم میں تھے کہ قاصد پہنچ گیا۔تبع الحمیری کے جذبات صدیوں بعد بھی محمدﷺ تک پہنچ گئے :آنحضرتﷺ نے اس شخص کو دیکھتے ہی فرمایا ! ’’ تو ابو یعلی ہے ؟ اور کیا تبع کا خط تیرے ہی پاس ہے ‘‘ یہ الفاظ سن کر وہ شخص حیران و ششدر رہ گیا ۔کیونکہ وہ حضورﷺکو پہچانتا بھی نہیں تھا اور نہ ہی حضورﷺنے پہلے کبھی اس سے ملے تھے۔ اس نے حیران ہو کر دریافت کیا۔

 

آپ کون ہیں اور مجھے آپ کے چہرے سے جادو کے آثار بھی نظر نہیں آتے ۔‘‘ حضورﷺنے فرمایا ! ’’ میں محمدؐ بن عبداللہ ہوں ۔ اور صاحب کتاب ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے۔‘‘ ابو یعلی نے خط جیب سے نکالا اورحضورﷺکی خدمت عالیہ میں پیش کردیا۔ حضورﷺجب اس خط کے مضمون سے مطلع ہوئے توآپﷺنے زبانِ مبارک سے تین مرتبہ فرمایا !مرحبا یا اخی الصالح یعنی اے صالح بھائی مرحبا یہ کوئی معمولی اعزاز نہ تھا ۔

 

تبع الحمیری نے مدینہ میں گھومتے ہوئے جوجوکہاتھااللہ نے اسکی تمام باتیں پوری کردیں۔
جو کسی اور کو بسیار کوشش اور خواہش کے باوجود نہ مل سکا۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا اس کے ساتھ ساتھ اہل مدینہ کو  انصار کا لقب ملا یعنی مدد کرنے والے ۔ اگر تبع الحمیری کے اشعار کی جانب توجہ کی جائے تو اس نے ایک ہزار سال قبل کہا تھا ۔اگر میری عمر ان تک پہنچی تو میں ادنیٰ غلام کی طرح ان کی خدمت کروں گا اور کا معین و مدد گار بنوں گا۔

 

ان کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کروں گا۔تبع الحمیری کی یہ دعا قبول ہوئی ۔ اس کے آباد کئے ہوئے چار سو علماء وحکماء کی اولاد آگے چل کر نبی آخرالزماں کی معین مدد گا ر بنی اور انہوں نے رسول اکر مﷺکے تمام دکھ درد دور کرنے میں اپنی تمام تر قوتیں اور توانائیاں صرف کردیں ،جان ومال سے دریغ نہ کیا اور امداد طلب کرنے کے وقت کہا کہ: یا رسول اللہﷺ! ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔آپ فرمائیں گے تو آگ میں بھی کود جائیں گے ۔

ہم موسیٰ ؑ کی قوم نہیں

آپﷺ حکم دیں گے تو سمندر میں چھلانگ لگادیں گے ۔ ہم موسیٰ ؑ کی قوم نہیں جویہ کہیں کہ جائیں آپ اور آپ کا خدا جنگ لڑیں اور ہم یہاں انتظار کرتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
1 تبصرہ
  1. […] ہر طرف نور ہی نور تھا حضورکی اونٹنیاسماء بنت ابوبکر صدیق اورہجرت مدینہابوذر تنہا چلتے […]

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

%d bloggers like this:
Verified by MonsterInsights