A political party that wants to play an important role in the development and construction of Pakistan along with the rights of the Meo Nation.

پہلے مقبوضہ پاکستان پھر کشمیر

زندگی بار بارنہیں ملتی باقی عمرمیں پہلے مقبوضہ پاکستان پھرکشمیر آزاد کروائیں گے،، عابد حمید خاں میو

0 116

پہلے مقبوضہ پاکستان پھر کشمیر

پہلے مقبوضہ پاکستان پھر کشمیرآزاد کروائیں گے،اس معاملے میں ہم آٹھ وجوہات بیان کریں گے۔،یہ بات آل پاکستان میواتحاد کے چیئرمین عابد حمید خاں میو نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ظفروال سے جاری کردہ پریس ریلیزمیں کہی ہے۔کہ ہم 75سالوں سے مقبوضہ کشمیر کوآزادکروانے کیلئے نعروں اورعملی کوششوں میں مصروف تھے لیکن ہمیں یہ بات سمجھ ہی نہ آسکی کہ جوملک خود مقبوضہ ہووہ کسی مقبوضہ ملک کوکیسے آزادکرواسکتاہے؟

 

 پاکستانی سیاستدان کمپنی کے سامنے کیوں نہ کھڑے ہوئے ؟ 

 پہلے مقبوضہ پاکستان پھرکشمیرتوتبھی آزادہوتاجب ہمارے سیاستدان کمپنی کی جوتیاں صاف نہ کررہے ہوتے۔،آج تک یہ بات مقبوضہ پاکستان کے عوام سے چھپائے رکھی ہے کہ ہم ایک مقبوضہ ملک ہیں۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ کمپنی امریکہ کی غلام ہے اور سیاستدان کمپنی کے غلام رہے ہیں۔2023کے سال نے یہ بات افشاں کردی کے آج کے بعد مقبوضہ کشمیر کوآزادکروانیکی ریلیوں اور نعروں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا جب تک ان تمام کوششوں اور جذبوںکارُخ مقبوضہ پاکستان کی جانب نہیں کردیاجاتا۔

 

لیڈران کوعوام کی ذہن سازی کرناہوگی

۔دانشور،ادیب،علمائے عظام اورمحب وطن سیاستدان اپنے اپنے خطبات میں عوام ِپاکستان کی ذہن سازی کرکے پہلے مقبوضہ پاکستان پھرکشمیرکو امریکی غلام کمپنی سے آزادی دلوانے میں اپنا کرداراورحصہ ڈال سکتے ہیں۔غلامی مسلمان کی توہین ہے اور یہ توہین برداشت کرنا قرآن پاک اور دین ، اسلام کی گستاخی کے زمرے میں آبیٹے عثمان کاڈرامہ ذہن سازی میں اپناکتاہے۔آج نوجوان نسل کیلئے ارطغرل غازی اور انکے رداراداکرسکتاہے۔

 

پاکستان مثالی قربانیوں کا وجود ہے۔

آل پاکستان میواتحاد کے چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ یہ جذبہ اور لگن ہمارے خون میں اس لیے دوڑتا ہے کہ پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے لا تعداد قربانیاں دی گئیں ۔جاگیریں اس ملک کی خاطر چھن گئیں ہیں۔اگر پاکستان آزادنہیں ہوتاتوہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے بھی گناہگارہوں گے۔مقبوضہ پاکستان پر چند مٹھی بھر کمپنی کے لوگوں نے قبضہ کیا ہواہے۔

 

پہلے مقبوضہ پاکستان پھر کشمیر

 

آزادپاکستان ہم سب کی ذمہ داری

ہمیں اداروں کوقانون کے دائرے میں رہنے پرمجبورکردیناہوگا،تاکہ پہلے پاکستان اورکشمیرآزادہوسکے۔ جب ہم نے قانون سے تجاوزکرنیوالے اداروں کوانکی  ذمہ داری یاد دلا دی تو انشاء اللہ پاکستان آزاد ہوجائیگا اور ہم مقبوضہ کشمیرکوبھی آزادکرواکراپنے کشمیری بھائیوں کو عملی طورپریہ ثابت کرکے دکھانے کے قابل ہوجائیں گے کےہمیں کلمہ طیبہ نے یہ ذمہ داری سونپی تھیں ہم نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔

 

سیاستدانوں کولالچ چھوڑناہوگا

انہوں نے سیاستدانوں کو اس طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرانہوں نے لالچ کوخیرباد نہ کہاتوپہلے مقبوضہ پاکستان پھرکشمیرکی آزادی کانعرہ اُدھورارہ جائیگا۔ایک پچانوے فیصد مسلمان آبادی پر مشتمل ملک پاکستان کی بین الاقوامی سطح پرتذلیل کروانے میں دین سے دُوراور لالچی سیاستدانوں کے  علاوہ اور کس کا کردار ہوسکتاہے۔جسمیں سیاسی علماء اور دین سے دُور طبقہ شامل ہے۔

 

پہلے مقبوضہ پاکستان پھر کشمیر

 

پاکستانی سیاستدانوں کوسب سے زیادہ عذاب ہوگا

مدینہ طیبہ کی ہجرت کے بعد شاید سب سے بڑی ہجرت تاریخ ِ اسلام میں پاکستان کی جانب ہی ہوئی ہے۔ہجرت کرنے والے عوام کیساتھ کیا کیا بیتی اور کس کس طرح سے بیتی تاریخ کا مطالعہ کرنیوالے کم ازکم ان ابواب کو تو زندگی بھر بھلا نہ پائیں گے۔دین سے دُور اور لالچی سیاستدانوں نے اس ملک کو اپنے مقاصد کیساتھ پھلنے اور پھولنے کا موقع نہیں دیا۔جس ملک نے کلمہ طیبہ کی طرح پوری دنیاپرظاہر ہونا تھااسکی بنیادیں ہی کھوکھلی کرکے رکھ دی گئیں۔میدان حشر میں اگر مسلمانوں میں سے کسی کو سب سے بڑی سزا ملی تو وہ پاکستان کی کمپنی،لالچی علماء ودانشوران

 

 

پہلے مقبوضہ پاکستان پھر کشمیر

پاکستانی حکمرانوں کا ابتک کا رویہ عوام کی تذلیل ہے۔

پاکستان کے سیاستدانوں کو کلمہ طیبہ اور اسکے تقاضوں سے دُور کابھی واسطہ نہیں ہے۔قیام پاکستان سے لیکرابتک کی تاریخ پر اگر گہری اورمنصفانہ نظر دوڑائی جائے تویوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا قیام ماسوائے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کچھ بھی نہیں ہے۔اوراگر ایسا نہیں ہے تو ابتک یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اور کون کررہا ہے ؟ہمیں ہرصورپہلے مقبوضہ پاکستان پھرکشمیرکوآزادکروانا ہی ہوگا۔

غدار،ایجنٹ کے ٹھپے اوروضاحتیں

 

اکثر آپ سے کہتا ہوں کہ ہم قبائلی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اس ذہنی روش کی ایک نشانی یہ ہے کہ قبیلے سیاسی طاقت کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے سیاست دان اور ان کے حمایتی ایک دوسرے کو غدار، کافر اور کرپٹ قرار دیتے ہیں۔

کسی حد تک میں بھی اس گناہ میں شامل ہوں حالانکہ اپنے طور پر پوری کوشش کرتا ہوں کہ شخصیت سے زیاد نظریہ، پالیسی اور فیصلوں پر تنقید کی جائے۔ میں کوئی اتنا نمایاں سیاست دان نہیں ہوں، مگر جب سے ہماری نئی جمہوریہ کی تحریک اور قومی سیاسی مذاکرات کے مطالبے نے زور پکڑا ہے، میری ذات پر بھی سوشل میڈیا میں جھوٹے الزامات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

میں اپنی ذات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہچکچاتا ہوں مگر خاموشی کا مطلب اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الزامات درست ہیں۔ مجبوراً آپ کی خدمت میں حقائق پیش کرنا ضروری ہیں۔ آپ نہ پڑھنا چاہیں تو یہیں رک جائیں۔

دوہری شہریت وہ الزام ہے جو سب سے زیادہ لگتا ہے۔

اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ میرے پاس پچھلے 20 سال سے کاروباری ضروریات کے لیے ایک انٹرنیشنل فون نمبر ہے جسے میں وٹس ایپ پر استعمال کرتا ہوں۔ دوسرا یہ کہ 2010 میں پاکستان امریکن چیمبر آف کامرس کا صدر رہا۔ میرے پاس کوئی دوہری شہریت نہیں۔

بہت سے ملکوں کے مختلف قسم کے ویزے ضرور ہیں مگر شہریت صرف اور صرف پاکستانی ہے۔ یہی وجہ ہے 2013 اور 2018 میں میری کاغذات نامزدگی منظور ہوئے۔ جب میں چیمبر کا صدر تھا تو سینیٹ کے نائب چیئرمین سلیم مانڈوی والا بی او آئی کے چیئرمین تھے اور مجید عزیز کراچی چیمبر کے صدر۔

یہ دونوں گواہی دے سکتے ہیں کہ میں نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کی بھرپور کوشش کی۔ آج تک پاکستان سے ایک ڈالر بھی باہر نہیں لے گئے بلکہ ہمیشہ پاکستان میں نہ صرف زرمبادلہ بھجوایا بلکہ نوکریاں بھی پیدا کیں۔

میں دوہری شہریت کے لوگوں کو پارلیمان کا الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا بھی مخالف ہوں مگر غیر ملکی پاکستانیوں کے لیے کچھ نشستیں مخصوص کرنے کا حامی ہوں جیسے اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں ہیں۔

اسی الزام سے جڑا ایک الزام یہ ہے کہ امریکن ایجنٹ ہوں،

یعنی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ موجودہ جمہوریہ ناکام ہو جائے اور میں ان کے ایجنٹ کا کام کر رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر چاہوں تو امریکہ کی کسی بھی اہم شخصیت سے مل سکتا ہوں، مگر چونکہ پاکستانی سیاست میں حصہ لیتا ہوں اس لیے کسی بھی اہم شخص سے انفرادی ملاقات سے گریز کرتا ہوں تاکہ کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔

ناصرف یہ بلکہ امریکہ جب بھی ایسی پالیسی اپناتا ہے جو پاکستان اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہو تو بلاخوف و جھجک میں نے ان پر شدید تنقید کی ہے جس کے ثبوت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

بہت سے دوسرے سیاست دانوں کی طرح مجھے بھی کئی دفعہ سوشل میڈیا پر غدار کا لقب مل چکا ہے۔ یہ لقب اکثر اس وقت ملتا ہے جب فوج کے فیصلوں اور سیاست میں مداخلت پر تنقید کی۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو فوج کا دوست اور حمایتی قرار دیتے ہیں۔

افسوس یہ ہے کہ اس رویے سے جتنا نقصان فوج کے ادارے کو ہوا ہے کسی چیز سے نہیں ہوا۔ فوج اور ریاستی اداروں نے آج تک کسی ایک شخص کو بھی اس طرح کے جھوٹے الزامات لگانے پر سزا نہیں دی۔ جب پی ٹی آئی میں تھا تو عمران خان مجھے مسلم لیگ ن کا ایجنٹ قراد دیتے تھے یعنیٰ پارٹی کا غدار۔

فوج کا ایجنٹ۔

عجیب بات یہ ہے کہ جب فوج پر تنقید کی تو غدار ٹہرے مگر آج کل جب میں پی ڈی ایم کی سیاست، نواز شریف کے بیانات اور مسلم لیگ ن کے غلط فیصلوں پر تنقید کر رہا ہوں تو ان کے حمایتیوں نے فوج کا ایجنٹ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے حامیوں کا یہ خیال

ہے کہ میں وہ خفیہ ایجنٹ ہوں جو اٹھارویں ترمیم کے خلاف مہم چلانے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ میں صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کر رہا ہوں۔ میں ان تمام الزامات کو مسترد کرتا ہوں ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میری اپنی سیاست ہے اور میں ڈیڑھ سال سے خود کو سمجھا رہا ہوں کہ موجودہ جمہوریہ ناکام ہو چکی ہے اور اب ایک نئی عوامی جمہوریہ کی ضرورت ہے جس کے لیے قومی سیاسی مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

%d bloggers like this:
Verified by MonsterInsights